سپریم کورٹ کے ایک فاضل اور بزرگ وکیل سے میری بہت اچھی شناسائی ہے ۔ بہت محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں اور اچھا ادبی اور علمی ذوق رکھتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل موصوف محترم سے ملاقات ہوئی توپوچھا آج کل کیا کر رہے ہو۔ میں نے بتایا کہ مکافاتِ عمل کے حوالے سے کتاب مرتب کرنے کا ارادہ ہے تو فرمایا ایک انتہائی عبرتناک اور لرزہ دینے والا واقعہ میرے پاس بھی ہے اور میری درخواست پر انہوں نے جب اس کی تفصیلات سنائیں تو میں اللہ کی صفت انتقام پر مبہوت رہ گیا اور جب بھی اس کا تصور کرتا ہوں‘ واقعتا کانپ اٹھتا ہوں۔
موصوف محترم نے بتایا کہ ان کے علاقے میں جاگیرداروں کا ایک خاندان ہے۔ خاندان کا سربراہ فوج میں بریگیڈیئر تھا لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد وہ سارا وقت زمینوں کی نگرانی اور نگہداشت میں صرف کرتا تھا ۔ اس کے دو محبوب مشاغل تھے۔ فارغ وقت میں مرسڈیز کار پر سیر کرتا اور ہر وقت دو ڈھائی لاکھ کی رقم پاس رکھتا اور نوٹوں کو گنتا رہتا۔
ایک روز دوپہر کو وہ ڈیرے پر گیا۔ سارے نوکر ‘ مزارع خدمت میں حاضر ہو گئے۔ پتہ نہیں کیا بات ہوئی اسے ایک مزارع پر غصہ آ گیا‘ اس نے ڈنڈا پکڑا ‘ اس کی پٹائی شروع کر دی۔ اس بے چارے نے جان بچانے کی خاطر بھاگ کر ایک جھونپڑے میں پناہ لے لی اور اندر سے کنڈی لگا لی۔ جاگیردار ظالم نے باہر سے کنڈی لگائی اور جھونپڑے کو آگ لگا دی۔ جھونپڑا لکڑیوں سے اور گھاس پھوس سے ہی تو بنا ہوا تھا‘ فوراً ہی آگ بھڑک اٹھی اور سارا جھونپڑا الاﺅ کی صورت اختیار کر گیا۔ کسی مائی کے لال میں جرات نہیں تھی کہ آگے بڑھ کر مداخلت کرتا‘ چنانچہ وہ غریب جھونپڑے کے اندر جل کر بھسم ہو گیا۔ کس کی مجال تھی کہ وہ ایک جاگیردار اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر کے منہ آتا‘ اس کےخلاف کہیں فریاد کرتا یا قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتا۔ کچھ دن اس واقعے کا قرب و جوار میں سرگوشیوں کے انداز میں چرچا ہوا اور پھر گہری خاموشی چھا گئی۔ کرنا اللہ کا یہ ہوا کہ چند ہی ہفتوں کے بعد متذکرہ جاگیردار کے گھٹنوں میں تکلیف شروع ہو گئی‘ پہلے سوجن اور درد اور پھر مکمل فالج‘ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس شخص کےلئے ایک انچ بھی حرکت کرنا ممکن نہ رہا۔ ملازم ہی اسے اٹھا کر بستر پر لٹاتے اور ملازم ہی ٹائلٹ میں لے جاتے‘ شب و روز اسی طرح گزرتے رہے۔ زندگی اس جاگیردار بریگیڈیئر کےلئے وبال بن گئی۔
مئی کا مہینہ تھا‘ گندم پک گئی تھی اور زمینوں پر تھریشر لگے ہوئے تھے۔ اس نے گھر میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ بہت دن سے میں باہر نہیں گیا۔ تھریشر بھی کام کر رہے ہیں‘ کیا ہی اچھا ہو کہ مجھے باہر لے جایا جائے‘ ہوا خوری بھی ہو جائے گی‘ گندم نکلتے ہوئے بھی دیکھ لوں گا اور طبیعت بھی بہل جائے گی۔ چنانچہ ملازموں نے اسے اٹھا کر اس کی پسندیدہ مرسڈیز کی پچھلی سیٹ پر بٹھا دیا ‘ اس نے دو ڈھائی لاکھ کے نوٹ جیب میں ڈالے اور ڈرائیور اسے لے کر چل پڑا۔ جاگیر کا رقبہ چونکہ بہت وسیع تھا‘ اس لئے گاڑی کو تھریشروں کی طرف جاتے ہوئے خاصا فاصلہ طے کرنا پڑا۔ لیکن ایک مقام پر جا کر گاڑی رک گئی۔ آگے گنے کے کھیت تھے‘ تھریشر دوسری جانب برسرکار تھے اور گاڑی کا مزید آگے جانا ممکن نہ تھا۔ جہاں گاڑی جا کے رکی وہاں سے گنے کاٹے جا چکے تھے اور ہر طرف گنوں کے خشک پتے کثرت سے بکھرے ہوئے تھے۔ دیہاتی ماحول سے آشنا لوگ جانتے ہیں کہ گنوں کے خشک پتے جنہیں عرف عام میں ”چھوٹی“ کہا جاتا ہے کس قدر آتشیں مزاج کے حامل ہوتے ہیں اور گڑ تیار کرنے والے کسان انہیں چولہوں میں جلاتے اور انہی کی آگ سے گڑ تیار کرتے ہیں جیسا کہ عرض کر چکا ہوں گنے کے کھیت کا کچھ حصہ کٹا ہوا تھا اور ہر طرف چھوٹی بکھری ہوئی تھی۔ وہیں گاڑی جا کر کھڑی ہو گئی۔
ڈرائیور نے جاگیر دار کو بتایا کہ سر تھریشر کماد یعنی گنے کے کھیت کی دوسری جانب کام کر رہے ہیں اور ادھر گاڑی لے جانے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ اب کیا حکم ہے ؟ کیا کیا جائے؟ جاگیردار نے کہا کوئی بات نہیں ‘ تم گاڑی کو یہیں چھوڑو‘ اے سی چل رہا ہے‘ مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا تم جاﺅ اور جاکر دیکھو تھریشروں پر کام کی کیا رفتار ہے‘ کتنی گندم سے غلہ نکل آیا ہے اور کتنی باقی ہے۔ میں تمہارا یہیں انتظار کرتا ہوں۔ چنانچہ ڈرائیورچلا گیا اور فوراً ہی کماد کے دوسری طرف جا کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اب قرائن یہ ہیں کہ جاگیردار نے ماچس جلا کر سگریٹ سلگایا اور جلتی ہوئی ماچس باہر پھینک دی۔ مئی کا مہینہ تھا‘ غضب کی دھوپ تھی‘ گاڑی کے نیچے اور چاروں جانب ”چھوٹی“ بکھری ہوئی تھی اور یہ چھوٹی تو آگ پکڑنے کا بہانہ مانگتی ہے‘ چنانچہ فوراً ہی ”چھوٹی“ نے آگ کا پرجوش استقبال کیا‘ گاڑی کے چاروں طرف الاﺅ بھڑک اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ جاگیردار دو ڈھائی لاکھ رقم اور بے حد قیمتی مرسڈیز کار سمیت جل کر کوئلہ ہو گیا اور کوئی بھی اسے اللہ‘ جبار و قہار کے غضب سے بچا نہ سکا۔
محترم وکیل صاحب نے بتایا کہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ وہی جگہ تھی‘ جہاں وہ جھونپڑا تھا جس میں ایک بے یارو مددگار غریب مزارع کو جلا کر بھسم کیا تھا۔ اللہ اکبر‘ اللہ اکبر۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 301
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں